Urdu short story.

محبت کی مہک۔ 


کہتے ہیں آج بھی اگر آپ کا کبھی ایاز نگر کی طرف جانے کا

اتفاق ہو تو وہاں اک خاص مہک آپ کا انتظار کرتی ہے۔ مہک آپ کو دیوانہ وار اردگرد دیکھنے پر مجبور کرتی ہے، کہ شاید کوئی اس پاس ہو، کوئی تازہ دیسی گلابوں کا ہار ہو۔ 

چودھری ایاز اس علاقہ کا مالک تھا، چونکہ وہ اکلوتی اولاد تھا، اس کے والد چوہدری غلام علی نے بہت ناز سے اس کی پرورش کی تھی، غصہ کا تیز تھا پر پیار کے جذبات سے باخوبی واقف تھا، پورے ایاز نگر کیلیے چوہدری ایک شفیق باپ کی اہمیت کا حامل تھا۔  

ایاز کی شادی راج نگر کے چوہدری اللہ دتہ کی بیٹی سمیرا سے قرار پائی۔ اللہ دتہ اور غلام علی جگری یار تھے، دونوں نے ایک ساتھ سکول میں پڑھا تھا، غلام علی  نے سکول کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہ دیا تھا اور اپنے مرحوم والد کی زمینوں کی دیکھ بھال میں لگ گیا تھا۔  اللہ دتہ نے تعلیم کا ساتھ نہ چھوڑا اور اللہ دتہ سے ڈاکٹر اللہ دتہ ہو گیا۔ 

ایاز نگر اور راج نگر کے درمیان میں تقریباً کوئی سو کلو میٹر کا فاصلہ تھا، غلام علی اپنے بیٹے سمیت برسوں بعد راج نگر کی طرف نکلا، کچھ دوست کی یاد ستائی اور کچھ صلاح مشورہ کی ضرورت تھی، اللہ دتہ کو بذریعہ خط بتا دیا گیا تھا کہ جون کے پہلے ہفتے میں غلام علی اور ایاز اس کے ہاں مہمان ہوں گے۔ 

اس شام موسم کچھ بہتر تھا،ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جیسے راج نگر میں چوہدری غلام علی اور اس کے فرزند کا استقبال کر رہی ہو، سامنے ان کی منزل تھی، اللہ دتہ کی حویلی، آج بھی وہ دن غلام علی کو یاد ہیں جب وہ سکول سے چھٹیوں میں یہاں آیا کرتا تھا۔ دونوں دوست بیٹھے گزرے وقتوں کی یادیں تازہ کرتے رہے اور اتنے میں سفید دوپٹہ اوڑھے اک خوبصورت لڑکی چاۓ لے کر حاضر ہوئی، اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور گلابی ہونٹ دیکھ کر ایاز کے دل میں ہلچل مچ گئی اور وہ بس اس کی طرف دیکھتا رہا۔ بیٹی سمیرا، یہ ہیں چوہدری غلام علی صاحب اور ان کے فرزند چوہدری ایاز، اللہ دتہ نے تعارف کروایا۔ 

غلام علی نے بھی تکلف سے بھرپور تعارف کروایا تو اللہ دتہ نے شکایت کی کہ اتنا تکلف کیوں کیا، جگری یار کا اس طرح تعارف کرواؤگے؟ 

ان دونوں کی باتوں سے بے خبر ایاز اپنی دنیا میں گم تھا، جوانی کی دہلیز سے گزر چکا تھا اور جذبات سے نیا نیا آشنا ہو رہا تھا۔ پوری رات وہ سوچتا رہا کہ کیا وہ اپنی خواہش سے اپنے والد کو آگاہ کرے، آخر بےقراری سے تنگ آکر اس نے اپنی خواہش کا اظہار کردیا، اکلوتا ہونے کی وجہ سے باپ کی آنکھ کا تارا تھا، غلام علی نے اپنے دوست سے بات کی، فیصلہ یہ ہوا کہ سمیرا اپنی تعلیم حاصل کر کے ایاز کے ساتھ بیاہ دی جائے گی۔ وہ دو سال ایاز نے گن گن کر کاٹے، خط و کتابت کی اجازت تھی اور ہر خط میں دونوں پیار کا اقرار کرتے، گو کہ سمیرا شروع میں اس بندھن سے خوش نہیں تھی پر ایاز کی پرخلوص محبت نے اس کا دل جیت لیا اور وہ بھی شادی کے دن گننے لگ گئی۔ آخر شادی کا دن بھی آگیا اور دونوں کی جوڑی کو چاند و سورج کی جوڑی سے مماثلت دی جاتی تھی۔ 

وقت گزرتا گیا اور سمیرا کی جھولی پانچ بچوں سے بڑھ گئی، فراز، سجاد، ہمیرا، تنویر اور گلابو۔ گلابو ایاز کی آنکھوں کی روشنی تھی، بلکل اپنی ماں کی شکل پر تھی اور ایاز جیسی خوش مزاج اور با ادب تھی۔ وقت گزرتا رہا اور گلابو چوہدری ایاز کے گھر اور پورے ایاز نگر کی جان بن گئی۔ سکول سے کالج تک کا سفر بہت کچھ بدل گیا، کمال کالج کا سب سے خوبصورت لڑکا تھا اور فراز کے دوست کا چچچا ذاد بھائی بھی تھا۔ کمال اورر گلابو اک دوسرے کو چاہنے لگے، نوجوانی میں انسان کافی کچھ بھول جاتا ہے، پر باپ اور بھائیوں کی عزت کی خاطر اس نے شرم و حیاء کا دوپٹہ کبھی نہ اتارا۔ لوگ کبھی کبھار کوئی بات کمال کو لگا دیتے پر وہ اپنے کام میں مگن رہتا تھا، اس کے نزدیک پیار ایک مقدس اہمیت کا حامل تھا۔ 

دسمبر کی اک سرد شام تھی، کسی وجہ سے گلابو کو کالج میں رکنا پڑا اور کوئی تانگہ نظر میں نہ تھا، وہ پیدل گھر کو چلی۔ راستے میں اجب اتفاق ہوا کہ کمال اپنی موٹر سائیکل پر وہاں سے گزرا، اس نے لفٹ کی پیشکش کی جو گلابو نے کچھ سوچ کے بعد قبول کر لی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور اندھیرے کا یہ سماں، دل گھبرا رہا تھا۔ 

ایاز نگر میں خاموشی اور بے چینی کا موسم تھا، فراز اور سجاد دونوں موٹر میں شہر کی طرف نکل دیے۔ موٹر سائیکل حویلی کے دروازے پر رک گیا، گلابو بے کمال کا شکریہ ادا کر کے اپنی راہ لی، چوہدری ایاز نے دیکھا تو گلے لگا کر 

 پوچھا کہ کدھر رہے گئی تھیں۔ 

شہر میں دونوں بھائیوں کو مختلف کہانیاں سننے کو ملیں، کبھی کوئی کچھ مصالحہ لگائے تو کبھی دوسرا کسی اور طرح،

 

 فراز غصہ میں آگ بگولہ ہو گیا اور اس کے دل میں اپنی بہن کیلیے نفرت کے سوا کچھ نہ تھا، اس کے نزدیک اس کی عزت نیلام ہو چکی تھی۔ واپس جاتے ہوۓاس نے ایک تیز دہار چاقو خریدا اور کوٹ کی جیب میں رکھ لیا۔ 

حویلی میں خوشی کا سماں تھا،فراز اور سجاد واپس آچُکے تھے، فراز کو خوشی نہ تھی، اس نے گلابو کو گلے لگایا اور ساتھ ہی چاقو کے وار سے اس بیچاری کی شہ رگ کاٹ ڈالی۔ خون کی اک دہاڑ نکلی اور اس کے سفید دوپٹے کو سرخ کرتی چلی۔ چوہدری ایاز کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی، آخری بات جو اس نے بولی “ابا حضور آپ کی عزت سرآنکھوں پر” 

 تدفین کے وقت چوہدری ایاز نے بھی یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ 

آگر آپ کا کبھی جانا ہو اس طرف تو اس مہک کو ضرور محسوس کیجیے گا، کہتے ہیں وہ مہک خالص محبت کی ہے۔

Comments

Popular Posts