Second urdu short story

Second Urdu short story. Give feedback, share and follow




منٹو اور میں۔ پارٹ نمبر ۱

ویسے تو میری اور سعادت حسن منٹو کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو پاۓ گی. آپ کے نزدیک منٹو صاحب صرف ایک انسان ہوں پر میرے مطابق منٹو ایک سوچ کا نام ہے، ایک اصول کا نام ہے، چلئے اس کہانی کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔ 
 شام کا وقت تھا اور میں چاۓ کی پیالی اٹھائے باورچی خانہ کی جانب چل دیا، آج کی شام کوئی مصروفیت نہیں تھی، کیتلی سے گرما گرم چاۓ پیالی میں ڈالی اور اپنی میز کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ شیلف پر کچھ کتابیں رکھی ہوئیں تھیں اور ان میں سے ایک منٹو صاحب کے افسانوں کی تھی۔
مجھے یاد پڑھتا ہے کہ آخری دفعہ وہ کتاب اٹھائی تو اندازہ ہوا کہ ہر کہانی میں کم از کم دو سبق سیکھنے کو ملتے ہیں، اوّل وہ جو پڑھنے والا سمجھے اور دوئم وہ جو لکھنے والے کہیں چھپا چھوڑتا ہے۔ 
کہانی کا عنوان کالی شلوار تھا،  آپ اگر منٹو صاحب اور ان کے کام سے اختلاف رکھتے ہیں تو یقین جانیۓ میں اس کو بلکل نہیں بدلنا چاہتا، ہر انسان کو اس اختلافِ راۓ کا بنیادی حق حاصل ہے۔ 
“میاں تم اس کتاب سے کیا سیکھو گے؟ زمانہ بدل چکا ہے اور یہ کہانیاں پرانی ہو چکی ہیں” منٹو نے اپنی موٹی سی عینک ٹھیک کرتے ہوا بولا۔ 
“کہانی نئی ہو یا پرانی، ہر کہانی میں ایک انمول سبق ہوتا ہے، آپ بتائیں کیا انسان گزرے ہوۓ وقتوں سے کچھ نہیں سیکھ سکتا” میں نے جواب دیا۔ 
ہاں بات تو ٹھیک ہے تمہاری، چلو آج تم ایک کہانی سناؤ۔ یہ کالی شلوار تو میری اپنی تخلیق ہے، تم کچھ نیا سناؤ۔ 
کہانی تمہاری اپنی ہونی چاہیے، یہ ایک شرط ہے، چاہے آج تم مکمل نہ کرو اس کو، لیکن شروع ضرور کرو۔
میں نے اپنا گلہ صاف کیا اور چاۓ کا ایک گھونٹ بھرا۔ 
سن ۱۹۴۸ کی بات ہے، ابھی تقسیم کے زخم تازہ تھے، پاکستان کے وجود کو چند ماہ ہونے کو چلے تھے کہ لاہور کے مرزا شفیق احمد صاحب کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ مرزا صاحب کی پہلی اولاد تھی اور وہ بھی ایک لڑکا، گھر میں خوشی کا سماں تھا، غلام حسین عرف گامو حلوائی کی دوکان سے دو کلو برفی اور تین کلو لڈو منگواۓ، پورے محلے داروں اور آس پاس کے تمام رشتہ داروں کا منہ میٹھا کروایا۔ مرزا صاحب کی بیگم کا نام شمیم بی بی تھا اور وہ ان کی سوتیلی والدہ کی بڑی بہن کی اکلوتی لڑکی تھی۔ شمیم بی بی کا خاندان لکھنؤ میں رہائش پزیر تھا پر چونکہ ان کی شادی مرزا صاحب کے ساتھ ہوئی تھی تو وہ لاہور چلی آئیں۔ لاہور کی فضا بہت مختلف تھی اور شمیم بی بی کو اپنے گھر والوں کی یاد بھی بہت ستاتی تھی، تقسیم کے بعد ان کا اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے کوئی رابعطہ نہ رہا البتہ لکھنؤ میں ان کے ہمساۓ حاجی اشتیاق صاحب جو لاہور میں گھر الاٹ کروانے میں کامیاب ہو چکے تھے، ان کی زبانی جو کچھ مرزا صاحب نے سنا وہ اپنی شریکِ حیات کو بتا دیا۔  نفیس احمد صاحب اپنی زوجہ کنول بیگم اور تین بیٹوں سمیت فسادات سے کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے دہلی کی طرف نکل دئے تھے، وہاں اپنے دوست سے ایک خاندانی ہار جو بطور امانت رکھوایا تھا لے کر لاہور کو روانہ ہونا تھا۔ ٹرین میں بہت مشکل سے جگہ ملی، ہر بوگی انسانوں سے بھری ہوئی تھی، کنول بیگم نازک طبیعت تھیں اور جلد گھبرا جاتی تھیں، نفیس احمد صاحب اس بات سے بہ خوبی واقف تھے لیکن وہ بھی مجبور تھے، منت سماجت کر کے جگہ ملی تھی، ہاتھ میں تسبیح کے دانے تھے اور زبان پر درد و سلام جاری تھا کہ سلامتی سے منزلِ مقصود کو پہنچ پائیں۔ ٹرین علی گڑھ تک باحفاضت پہنچ چکی تھی لیکن علی گڑھ سے آگے نفیس احمد کے خاندان کا حاجی صاحب کو علم نہ تھا۔ مرزا صاحب نے شمیم بی بی کو بہت پر امید رکھنے کی کوششیں کی لیکن آخر کب تک وہ امید باندھے بیٹھی رہتیں اک نہ اک دن تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور جی بھر کر رو لیا، تین دن کا سوگ اور چالیسواں بھی منا لیا، آہستہ آہستہ زندگی اپنی رفتار سے آگے بڑھنے لگی اور زخم کافی حد تک بھر چکے تھے۔   جب کبھی وہ اداس ہوتیں تو دعا کا سہارا لی لیتں اور اپنے خداُ سے جی بھر کر دعا مانگتیں۔ 
کنول بیگم اور شمیم بی بی دونوں کے پاس ایک فیروزہ کا سیٹ تھا، جو کنول بیگم نے اپنی بیٹی کی شادی پر بنواۓ تھے۔ مرزا صاحب نے اپنی بیگم کو وہ سیٹ باقاعدگی کے ساتھ پہنے دیکھا۔ ایک شام ان کے دروازے پر دستک ہوئی تو حسبِ عادت بیگم شفیق احمد اپنا ہار پہنے باہر چلی آئیں تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت پیوند لگی چادر اورڑھے کھانے کو مانگ رہی ہے،  عورت کے چہرے پر ایک تل تھا، بلکل کنول بیگم جیسا پر آواز بہت کمزور تھی، شمیم بی بی روٹی لے کر واپس آئی تو ہو با ہو اپنے جیسا ہار بوڑھی عورت کے گلے میں دیکھا تو آپ کی آواز بند ہو گئی اور مشکل سے صرف اماں حضور کہہ سکیں۔ بوڑھیا نے لاغر سی آواز میں شمیم بولا اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔ آپ نے اپنی والدہ کی طرف دیکھ کر اپنے والد اور چھوٹے بھائیوں کا پوچھا تو سواۓ سسکیوں کے کچھ سنائی نہ دیا اور آنسووں کا اک دریا بہ چلا۔ 

منٹو صاحب:  تو یہ تھی تمہاری کہانی، کیا یہ ختم ہوچکی ہے یہ باقی ہے؟ 
میں: منٹو صاحب کہانی کبھی ختم نہیں ہوا کرتی، کاغذ ختم ہو جاتے ہیں، کلم ٹوٹ جاتے ہیں اور دوات سوکھ جاتی ہے۔ رات کا آخری پہر شروع ہونے کو ہے، شبِ بخیر۔ 
منٹو صاحب: شبِ بخیر۔ 
اور ایک پل میں ایسا ہوا کہ یہ ملاقات صرف اک خیال تھا اور یقیناً وہ اک خیال ہی تھا۔ 

Comments

Popular Posts